
Basit Subhani
نیچی فلائٹ، سیدھی لائن، اور ایسا دباؤ کہ بلے باز کو سانس لینے کا موقع نہ ملے۔ پچ جیسی بھی ہو، حالات جیسے بھی ہوں، اقبال قاسم اپنی رفتار اور اعصاب پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 50 ٹیسٹ میچوں میں 171 وکٹیں، وہ بھی دو رنز فی اوور سے کچھ ہی زیادہ کے خرچ پر – یہ کوئی عام ریکارڈ نہیں، یہ کردار کی کہانی ہے۔
فرسٹ کلاس کرکٹ میں 999 وکٹیں – ایک عدد کم، مگر ایک زندگی پوری۔ اگر حالات، تسلسل اور سلیکشن کا انصاف ساتھ دیتا تو یہ وہ بولر تھے جو آرام سے 300 ٹیسٹ وکٹیں لے سکتے تھے۔
1976 میں آسٹریلیا کے خلاف آغاز ہوا، دوسرے ہی ٹیسٹ میں سات وکٹیں لیں، مگر ٹیم کو شکست ملی۔ اس کے بعد ویسٹ انڈیز کا سخت دورہ، انگلینڈ کے خلاف سیریز، کچھ ناکامیاں، کچھ خاموش دن۔ لیکن اصل پہچان 1980 میں بنی، جب جاوید میانداد کی قیادت میں اقبال قاسم نے خود کو ایک مکمل ٹیسٹ بولر کے طور پر منوا لیا۔ آسٹریلیا ہو یا ویسٹ انڈیز، سب کو رنز کے لیے ترسایا، وکٹیں وقت پر حاصل کیں، اور میچ کا بہاؤ بدل دیا۔
اور پھر بنگلور 1987… وہ ٹیسٹ جو صرف اسکور بک میں نہیں، دلوں میں لکھا گیا۔ چوتھی اننگز کی خطرناک پچ، سامنے سنیل گاوسکر کی عظیم مزاحمت، اور دوسری طرف اقبال قاسم اور توصیف احمد۔ دونوں نے مل کر 83 اوورز کرائے۔ کوئی جلد بازی نہیں، کوئی گھبراہٹ نہیں۔ آخرکار وہی خاموش آدمی سیریز جتوا گیا، بھارت صرف 17 رنز دور رہ گیا۔ تاریخ نے تالیاں نہیں بجائیں، مگر سچ لکھ دیا۔
اقبال قاسم ون ڈے کرکٹ کے مزاج والے آدمی نہیں تھے۔ وہ ٹیسٹ میچ کی خاموش جنگ کے سپاہی تھے۔ اسی لیے تین ورلڈ کپ ان کے کیریئر کے دوران آئے اور گزر گئے، مگر انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔ جب بھی موقع ملا، بیٹنگ میں ٹیم کے لیے کھڑے ہوئے، فیلڈنگ میں حصہ ڈالا، اور ڈریسنگ روم میں ایک مضبوط ستون بنے رہے۔
شاید یہی تو میمَن روایت ہے۔ کم بولنا، زیادہ کرنا۔ تجارت ہو، معیشت ہو، تعلیم ہو یا فلاحی کام – میمَن کمیونٹی نے پاکستان کے ابتدائی دنوں میں نہ صرف کاروبار کھڑے کیے بلکہ ملک کی معیشت کو سہارا دیا۔ صنعتیں، روزگار، اسپتال، تعلیمی ادارے – اقبال قاسم اسی روایت کی زندہ مثال تھے۔ کرکٹ میں بھی وہی دیانت، وہی ضبط، وہی سادگی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے پاکستان کرکٹ کو نہیں چھوڑا۔ سلیکٹر بنے، منیجر بنے، انتظامی کردار ادا کیے مگر کبھی خود کو نمایاں نہیں کیا۔ جیسے میدان میں تھے، ویسے ہی باہر بھی: باوقار، سنجیدہ، پاکستان کے لیے سوچنے والے۔
اقبال قاسم ہمیں یہ سبق دے گئے کہ عظمت کے لیے شور ضروری نہیں ہوتا۔
کبھی کبھی خاموش لوگ ہی قوموں کی بنیاد مضبوط کرتے ہیں جیسے میمَن کمیونٹی نے معیشت میں کیا،اور اقبال قاسم نے پاکستان کرکٹ میں۔
– باسط سبحانی